🌿 حکیم سید نثار علی نثار جے پوری: برصغیر کا ایک باکمال طبیب اور شاہی معالج
برصغیر کی علمی اور طبی تاریخ میں، حکیم سید نثار علی نثار جے پوریؒ کا نام ایک غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ آپ کا شمار ان معزز اطباء میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی مہارت اور اخلاص کے ذریعے نہ صرف علمِ طب کو ایک نئی بلندی دی بلکہ جے پور کی شاہی دربار میں اعلیٰ ترین خدمات انجام دے کر طبِ یونانی کو ایک مستحکم اور باوقار حیثیت بھی عطا کی۔ آپ کے تیار کردہ نسخے اور مجربات آج بھی اہلِ فن کے لیے ایک قیمتی اثاثہ اور رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔ آپ کی زندگی علم، خدمت، اور دیانت داری کا ایک خوبصورت امتزاج تھی۔
👨👦 علمی پس منظر اور خاندانی نسبت
حکیم سید نثار علی نثار جے پوری، جن کے والد محترم کا نام حکیم سید مہدی حسن جے پوری تھا، نے اپنی خاندانی روایت کو مزید آگے بڑھایا۔ آپ کی طبی تعلیم کا سلسلہ بھی نہایت مستند اور علمی اعتبار سے مضبوط تھا۔ آپ نے فنِ طب کی باقاعدہ تعلیم اپنے چچا حکیم سید ممتاز الدین ولد حکیم سید افتخار الدین بدایونی سے حاصل کی۔
یہ نسبت صرف خاندانی ہی نہیں تھی بلکہ علمی لحاظ سے بھی بہت اہم تھی، کیونکہ حکیم ممتاز الدین، خود برصغیر کے مشہور طبیب حکیم صادق علی خان (جو اپنی شہرہ آفاق تصنیف 'زادِ غریب' کے مصنف ہیں) کے شاگرد تھے۔ اس طرح، آپ کا علمی تعلق اس عظیم طبی خانوادے سے جا ملتا ہے جس کا سلسلہ دہلی کے شاہی اطباء میں نمایاں مقام رکھنے والے حکیم شریف خان دہلویؒ تک پہنچتا ہے۔ یہ مضبوط تلمذ اور علمی وراثت آپ کی طبّی بصیرت اور مہارت کی بنیادی وجہ تھی۔
👑 دربارِ جے پور میں پیشہ ورانہ خدمات
حکیم سید نثار علی نثار جے پوریؒ کی پیشہ ورانہ زندگی کا ایک اہم موڑ جے پور دربار سے وابستگی تھا۔ آپ کے چچا حکیم افتخار الدین جے پور دربار میں "بصیغہ طبابت" (بطور طبیب) ملازم تھے اور ان کے انتقال کے بعد، آپ کی خدمات کو دربار میں شامل کرنے کی کوششیں کی گئیں۔
اس حوالے سے بخشی محمد امداد علی خان صاحب، جو اس وقت جے پور کے سابق کمانڈر انچیف تھے، نے کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ آپ کو اپنے ساتھ لے کر آئے تاکہ آپ دربار میں اپنی طبی صلاحیتوں کا اظہار کر سکیں۔ ان کی سفارش اور آپ کی ابتدائی قابلیت کے اعتراف میں، آپ کو سب سے پہلے "طبیبِ فوج" کے عہدے پر فائز کیا گیا، جہاں آپ نے فوجیوں کی صحت اور دیکھ بھال کا ذمہ سنبھالا۔
وقت کے ساتھ ساتھ، آپ کی غیر معمولی طبی صلاحیتوں نے مزید اعلیٰ حکام کی توجہ حاصل کی۔ خاص طور پر، راؤ بہادر بابو کانتی چندر جی C.I.A، جو جے پور ریاست کے سابق وزیرِ اعظم تھے، آپ کی علمی قابلیت اور علاج کی مہارت سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے ایک بڑا فیصلہ لیا۔ انہوں نے آپ کو فوج کے عہدے سے علیحدہ کروایا اور ایک زیادہ حساس اور اہم ذمہ داری کے لیے منتخب کیا: زنانی ڈیوڑھی میں شاہی خواتین کی خصوصی طبی خدمت۔ یہ تقرری دربار میں آپ کے مقام اور اعتماد کی ایک بڑی دلیل تھی، جہاں آپ نے نہایت اخلاص اور مہارت کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کیا۔
📜 مجرب نسخہ جات: طبِ یونانی کا قیمتی اثاثہ
حکیم سید نثار علی نثار جے پوری کی سب سے بڑی پہچان آپ کے وہ مجرب نسخہ جات ہیں جنہوں نے بیسیوں مریضوں کو شفا بخشی اور جو آج بھی طبِ یونانی کے ذخیرے میں سونے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ کی طبی مہارت کا دائرہ جے پور تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ دیگر ریاستوں کے اطباء اور عام مریضوں نے بھی ان نسخوں کو آزمودہ اور بے حد مؤثر پایا۔ طب کے اصولوں پر گہری نظر اور تجربے کی روشنی میں تیار کیے گئے یہ نسخے خاص طور پر دائمی اور پیچیدہ امراض کے علاج میں بہت مفید ثابت ہوئے۔
آپ کے چند مشہور اور معروف نسخہ جات میں یہ شامل ہیں:
- لعوق مجربہ و معمولہ برائے سل و دق: یہ خاص لعوق پھیپھڑوں کے امراض کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ اس نے اُس دور کے مہلک ترین امراض، یعنی سل (Tuberculosis) اور دق (Consumption)، میں غیر معمولی شفا بخشی۔ یہ لعوق کمزور پھیپھڑوں کو قوت دینے اور مرض کے اثرات کو زائل کرنے میں نہایت مؤثر مانا جاتا تھا۔
- عرق برائے امراض باردہ: اس عرق کو موسمی بیماریوں اور سردی کے اثرات سے پیدا ہونے والے امراض کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ یہ خاص طور پر موسمی نزلہ و زکام، اور بادی امراض میں بہت مؤثر ثابت ہوا۔ یہ نسخہ جسم سے سردی کے فاسد مادوں کو نکالنے اور جسم کے اندرونی توازن کو بحال کرنے میں مددگار تھا۔
- عرق استسقاء: یہ ایک بہت پیچیدہ مرض، استسقاء (Dropsy)، یعنی جسم کے مختلف حصوں یا جوفوں میں پانی بھر جانے کی حالت کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ چونکہ یہ مرض بہت مشکل اور جان لیوا تصور کیا جاتا تھا، اس لیے حکیم صاحب کا یہ عرق طبی حلقوں میں تیزی سے مقبول ہوا اور اسے کامیابی کے ساتھ استعمال کیا گیا۔
حکیم سید نثار علی نثار جے پوریؒ ایک کمال کے طبیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مخلص معالج اور اپنے خاندانی علمی ورثے کے حقیقی وارث تھے۔ ان کی زندگی طبِ یونانی کے علم کو آگے بڑھانے، مریضوں کی بے لوث خدمت کرنے اور ایک استاد کی حیثیت سے اگلی نسلوں کی رہنمائی میں گزری۔ ان کے مجربات اور علمی وراثت آج بھی اس قدیم طریقہ علاج کی افادیت اور مضبوط بنیادوں کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔ وہ واقعی علم، خدمت اور طبابت کی روشن مثال تھے۔
📝 حوالہ جات (Citations)
- سید عبد الحئی، حکیم۔ (-ء)۔ اسرار الطباء (جلد دوئم)۔ (صفحہ 139)۔
0 Comments
Post a Comment